Posts

Image
                                                          Dumsum Village   Dumsum is the name of a small village in Mashabrum Tehsil, Ganchhe District, Gilgit-Baltistan. It is located at a distance of about 150 km from Skardu city and about 50 km from Khaplu. We have heard from our ancestors that Dumsum is a combination of two words. "Dum" means drain and "Sum" means three. That is, the land of three canals. Some people believe that because it is surrounded by three large mountains, it is named Dumsum. There are two separate routes from here, one to Kunduz and the other to Siltro, both of which are counted in the last village of Baltistan. It is said that three couples came from Gulshan Kabir (a village near Dumsum) and settled here. Thus Dumsum settled later. Therefore, most of the surrounding areas are occupied by other villagers.   Islam spread even after the arrival of Hazrat Amir Kabir Syed Ali Hamdani. There is also a mosque founded by Amir Kabir Syed Ali Hamd
Image
 Thagas  village  Thagas village is located in the north of Pakistan the village is situated in District Guanche of Baltistan there are three Sub-divisio0n in Ghanche the third Sub-division is Masherbrum the sub-division is called Masherbrum because the Masherbrum peak is located in this sub-division thagas village is the head-quarter of sub-division Masherbrum. Thagas is covered by high mountains from its four sides and this village is look like an angel. this village is very beautiful in every season specially in summer the village reached at its peak beauty many tourists from different cites of Pakistan visits the village and they are so impressed by the beauty of nature .  in winter the  village is covered by snow and the view is so beautiful to see but in winter the temperature decrease very much and also there is no source of winter tour if  the government take a necessary action for winter tour then many people from country side and from countries will visit this place and it wi
Image
 ہیاق ( یاک ) بلتستان ، لداخ ، تبّت اور تبّت سے مُلحق بالائی علاقوں میں پایا جانے والا ایک حلال گوشت اور اہم ترین جانور "یاک" ہے۔ شروع میں یہ جنگلی جانوروں میں شمار ہوتا تھا اور بعد میں اسے پالتو بنایا گیا ۔ تبّت کی آبادی سے دور بعض سبزہ زاروں میں جنگلی یاک کے ریوڑ اب بھی پائے جاتے ہیں جن میں ہزاروں یاک شامل ہوتے ہیں ۔ شدید سردی اور برف میں بھی یہ بار برداری کا انتہائی کارآمد ذریعہ ہے ۔ اس لئے اسے "برف کی کشتی" سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ یہ اس علاقے میں پائے جانے والے تمام جانوروں میں قوی ہیکل جانور ہے ۔ یاک کی لڑائی بہت دلچسپ اور خوف ناک ہوتی ہے ۔ تبّت میں یاک لڑانے کا باقاعدہ میلہ لگتا ہے ۔ یاک کی سینگ سے بِگُل بنایا جاتا جو ریوڑ کو ہانکنے کے علاوہ قدیم زمانے میں جنگوں میں بھی کام آتے تھے ۔ یاک کی سینگ سے حقہ بھی بنایا جاتا تھا ۔ " یاک" بلتی اور تبّتی لفظ "ہیاق" کی بگڑی شکل ہے جس کی مادہ "ہیاق مو" کہلاتی ہے ۔ اس کا دودھ زرد رنگ کا ہوتا ہے اور تحقیق کے مطابق چھ فیصد چکناہٹ کا حامل ہوتا ہے اور یہ مکھن نکالنے کے لئے بہت ہی زرخیز دودھ ہوتا ہے ۔
Image
 سکردو کے بدھا کی تاریخ  بلتستان، لداخ اور تِبّت کا قدیم ترین مذہب "بون مت" تھا جو مقامی سطح پر پیدا ہوکر یہیں ختم ہوگیا ۔ اب یہ مذہب صرف تِبّت و لداخ میں محدود پیمانے پر رائج ہے ۔ "بون مت" کے بعد یہاں "بدھ مت" کی تبلیغ ہوئی اور چودھویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد سے پہلے یہاں "بُدھ مت" ہی رائج تھا ۔  سکردو منٹھل میں موجود بدھا کے نقوش آٹھویں صدی عیسوی یعنی آج سے کم و بیش 12 سو سال قدیم ہے ۔ یہ بُدھا پتھر تاریخی اعتبار سے بُدھ مت آثار کا ایک اہم تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے ۔ یہ دراصل چٹان پر تراشا ہوا بُدھی کونسل کا عکس ہے جسے منڈالا کہتے ہیں اور "منٹھل" اسی "منڈالا" کی بگڑی شکل ہے ۔ عظیم الشان طریقے سے تراشے گئے اس قسم کے منڈالا نقوش اب تک ہندوستان ، چین جاپان ، بھوٹان ، نیپال اور بھارت جیسے بدھ مت کے مراکز میں بھی دریافت نہیں ہوئے ہیں  تاریخ اور آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 727ء میں تِبتّیوں نے بلتستان کو اپنی سلطنت میں شامل کیا اور پھر یہاں بُدھ مت کی تبلیغ بڑے زوروں پر ہونے لگی ۔ سکردو کو مغربی مٙفتُوحہ علاقوں کا دارلخلافہ
Image
                                                                                   بلتستان  بلتستان خوبصورتی کے لحظ سے ایک انمول خدتہ ہے یہاں کے وادیوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی بہت خوبصورت اور مہمان نواز ہے انکے مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور ہےبلتستان میں پاکستان کے مشہور چوٹیاں مجود ہے جس میں    کے ٹو دنیا کے دوسری بڑی چوٹی ہے  پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہے اور بیھج میں ہم ہیں  مثالے گوہرے نیاپ ہم پھتر میں رہتے ہیں  پاکستان کے سب سے بڑے دریا سندھ بھی بلتستان سے ہی اپنی سفر شروع کرتے ہیں ۔ ائیں آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگ کس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کس طرح اپنے صروریات زندگی پورہ کرتے ہیں کون کونسے تہوار ماناتے ہیں ۔ بلتستان میں ۱۰۰% مسلم آبادی ہے اس لئے یہاں کے لوگ بھی وہ تمام تہوار مناتے ہیں جو باقی مسلم آبادی مناتے ہیں لکین انکے اپنے الگ طریقے ہیں جس پر ہم اگے چل کر بات کرتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کی ضروریات زندگی کی بات کرے تو یہاں کے لوگ اپنی صروریات ذندگی پورا کرنے کے لئے گھتی باڑی کرتے ہیں تاہم اس سے انکے صروریات زندگی پورا نہیں ہوتے اس لئے پاکستان کے بہت سے شہروں میں یہاں کے
Image
 "Adab-e-Baltistan" ...!! Literature has been a great part even an iconic social characteristic of the people of Baltistan, there was an idiomatic concept about the different dynasties i.e. Adab-e-Baltistan, Gardh-brdh Astore and Adalat-e-Gilgit and so on. The literary figures of Baltistan have been playing a phenomenal role in not only preserving this conceptual excellence but promoting it with their remarkable contribution. Our poets, writers, analysts, novelists, drama writers and creative content developers have great caliber and have good command on their respective fields.  Mr. Hassan Hasrat, a renowned national level researcher, historian and now a novelist, the winner of Presidential Pride of Performance Award, has now launched his newly published novel "#Gilgit_Baltistan_K_Adhoray_Khwab. I have experienced to have a thorough look of it while it was at early composing stage. I found it a well elaborated, literarily organized and technically sound addition. It wil
Image
                            Shilla, The Beauty, Loud n Clear without Communication  #Shilla, the promising refreshing and attractive tourist spot in district Skardu, is located at an latitude of almost 13000 ft, at it's peaks link and tie it with the famous Deo Sai Plain, Astore and Sadpara valley. The valley is rich of medicinal plants and herbs and the livestock are much abound. Shilla receives thousands of local and non local tourists and trekkers every year, even in winters the trekking mania pushes it lovers to the high cliffs and glacial lakes. In summers, the naturally  crystal clear water, fresh and revitalizing breathes and scenic beauty pays alot back to the visitors in just one ticket. Nature serves with a colored-carpet welcome with thousands of colorful flowers, it restricts the wandering steps with joy and amazement . The Eye of Fairies "Koshoq-thang Lake" tells its own story of eventful tales.  The purely hospitable people present gifts with traditional war