سکردو کے بدھا کی تاریخ 


بلتستان، لداخ اور تِبّت کا قدیم ترین مذہب "بون مت" تھا جو مقامی سطح پر پیدا ہوکر یہیں ختم ہوگیا ۔ اب یہ مذہب صرف تِبّت و لداخ میں محدود پیمانے پر رائج ہے ۔ "بون مت" کے بعد یہاں "بدھ مت" کی تبلیغ ہوئی اور چودھویں صدی عیسوی میں اسلام کی آمد سے پہلے یہاں "بُدھ مت" ہی رائج تھا ۔


 سکردو منٹھل میں موجود بدھا کے نقوش آٹھویں صدی عیسوی یعنی آج سے کم و بیش 12 سو سال قدیم ہے ۔ یہ بُدھا پتھر تاریخی اعتبار سے بُدھ مت آثار کا ایک اہم تاریخی و ثقافتی ورثہ ہے ۔ یہ دراصل چٹان پر تراشا ہوا بُدھی کونسل کا عکس ہے جسے منڈالا کہتے ہیں اور "منٹھل" اسی "منڈالا" کی بگڑی شکل ہے ۔ عظیم الشان طریقے سے تراشے گئے اس قسم کے منڈالا نقوش اب تک ہندوستان ، چین جاپان ، بھوٹان ، نیپال اور بھارت جیسے بدھ مت کے مراکز میں بھی دریافت نہیں ہوئے ہیں 

تاریخ اور آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ 727ء میں تِبتّیوں نے بلتستان کو اپنی سلطنت میں شامل کیا اور پھر یہاں بُدھ مت کی تبلیغ بڑے زوروں پر ہونے لگی ۔ سکردو کو مغربی مٙفتُوحہ علاقوں کا دارلخلافہ بنایا گیا اور اسی دور میں اس بڑے منڈالا کو تراشنے کا کام بھی مکمل ہوا۔





یہ چٹان تِکون جیسا ہے جس کی اونچائی 30 فٹ اور چوڑائی 20 سے 25 فٹ کے درمیان ہے ۔ چٹان پر گلدان میں کنول کے پھول مُنقّش ہے ۔ درمیان میں بڑا بُدھا یعنی مہاتما گوتٙم بُدھ کنول کے پھول پر براجمان ہے ۔ اسی طرح دیگر تمام بُدھا بھی کنول کے پھولوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ کنول کا پھول بُدھ مت میں مُتبرّک سمجھا جاتا ہے۔ 


بڑے بُدھا کے ارد گرد بیٹھے ہوئے چھوٹے بُدھا کی تعداد 20 ہے۔  یہ سب گزرے ہوئے بدھا ہیں جنہیں بُدھی اصطلاح میں "کلپاس" کہتے ہیں۔ تصویر میں دو بدھا کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ آنے والے بُدھا ہیں جنہیں "میتریا" کہتے ہیں۔چٹان پر تِبّتی رسم الخط میں تحریر کے تین حصے ہیں جن میں سے دو حصے اب اِمتِدٙادِ زمانہ کے ہاتھوں ختم ہوچکے ہیں ۔ صرف ایک حصہ باقی ہے جس میں بُدھ مت کے مذہبی احکامات اور ہدایات درج ہیں اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ چٹان کے دائیں گوشے میں تین افراد کی تصویریں دُندھلی سی نظر آرہی ہیں جو اعلی درجے کے لامہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس چٹان کے پیچھے سٹوپا یعنی چھورتن بنا ہوا تھا۔ چٹان کے اوپری سرے پر ایک طاقچہ چھت کی بیم پھنسانے کے لئے کندہ ہے۔ چٹان کے سامنے عبادات بجا لانے کے لئے ایک چبوترہ ہے جب کہ پیچھے کے دو اطراف میں غار ہیں جن میں لامے رہتے تھے۔ منڈالا کے ان نقوش اور گردونواح  میں موجود دیگر چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اس دور میں بدھ مت کی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز رہا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog